سری نگر:۱۳، اکتوبر : رواں سال ماہ جون کے پارلیمانی انتخابات اور پھرماہ ستمبرکے اسمبلی الیکن میں کراری شکست سے دوچار ہونے والی علاقائی جماعت پی ڈی پی کی لیڈر شپ کی توجہ احیائے نو پرمرکوز ہیں اور2باربرسراقتداررہنے والی علاقائی جماعت پی ڈی پی کو پھرایک سیاسی طاقت بنانے کیلئے وحید پر ہ اسمبلی کے اندر اورالتجاءمفتی باہرمحاذسنبھالنے کیلئے تیارہیں ۔جے کے این ایس کے مطابق قدآورسیاستدان مفتی محمدسعیدمرحوم کی جانب سے سال1999میں تشکیل دی گئی علاقائی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کو اقتدار حاصل کرنے میں صرف تین سال انتظار کرنا پڑا ۔سال2002کے اسمبلی انتخابات میں 16نشستوں پرکامیابی حاصل کرکے پی ڈی پی نے کانگریس اور دیگر جماعتوںکیساتھ گٹھ جوڑ کر کے حکومت بنائی ،جسکی سربراہی مفتی محمد سعید نے کی ۔اسکے بعد پی ڈی پی نے 2014کے اسمبلی انتخابات میں 28اسمبلی حلقوںمیں جیت درج کرکے سب سے بڑی پارٹی ہونے کااعزازپایا ،اورکافی مشاورت کے بعد اس جماعت نے ایک مشکل یا غیر متوقع فیصلہ لیتے ہوئے بی جے پی کیساتھ ملکر مخلوط سرکار بنائی ،جس نے پہلے مفتی محمد سعید کے انتقال کے بعدہچکولے کھائے اور پھر جون 2018میں بی جے پی کی جانب سے حمایت واپس لینے کے بعد محبوبہ مفتی کی سربراہی والی یہ سرکارگرگئی ۔6سال کے طویل انتظار کے بعد جب جموں وکشمیرمیں رواں سال ماہ ستمبرمیں اسمبلی انتخابات کرائے گئے تو پی ڈی پی کو سال کا دوسرا بڑا سیاسی جھٹکا لگا،کیونکہ جون 2024کے پارلیمانی انتخابات میں شکست کھانے کے بعد اس پارٹی کو اسمبلی انتخابات میں صرف تین حلقوںمیں کامیابی ملی جبکہ پارٹی صدر محبوبہ مفتی کی صاحبزادی التجاءمفتی کو بجبہاڑہ نشست پر غیر متوقع ہار کاسامنا کرنا پڑا ۔اتنا ہی نہیں پارٹی کے سینئر لیڈران بشمول عبدالرحمان ویری ،سرتاج مدنی ،ڈاکٹرمحبوب بیگ بھی الیکشن ہار گئے ۔گزشتہ دنو ں محبوبہ مفتی نے پارٹی میں تطہیری عمل شروع کرتے ہوئے تمام ریاستی ،صوبائی ،زونل ،اورضلعی عہدیداروں کو معطل کرتے ہوئے نیا تنظیمی ڈھانچہ تشکیل دینے کی شروعات کردی ۔ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق لوک سبھا اور اسمبلی دونوں انتخابات میں اہم دھچکے لگنے کے بعد، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اپنے تنظیمی ڈھانچے کو از سر نو تشکیل دینے کیلئے نوجوان قیادت کی طرف دیکھ رہی ہے۔جیسا کہ پارٹی جموں و کشمیر کے بدلتے ہوئے سیاسی منظر نامے پر تشریف لے جا رہی ہے، پی ڈی پی نے آئندہ پنچایتی اور میونسپل انتخابات کے لیے ممکنہ امیدواروں کی شناخت پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے عوامی رسائی اور نچلی سطح پر شمولیت کو ترجیح دینے کا منصوبہ بنایا ہے۔اس پیش رفت سے باخبر ذرائع نے نیوز ایجنسی کشمیر نیوز آبزرور کوبتایا کہ پی ڈی پی اپنی بحالی کی کوششوں میں التجاءمفتی اور وحید الرحمان پرہ سمیت نوجوان رہنماو ¿ں کی شمولیت کو بڑھانے کے لیے تیار ہے۔ذرائع نے بتایاکہ نئی حکمت عملی پی ڈی پی کو ایک متحرک قوت میں تبدیل کرنے کے پارٹی صدر محبوبہ مفتی کے وژن کے مطابق ہے، جو نوجوانوں کی توانائی سے چلتی ہے لیکن تجربہ کار سیاسی ہاتھوں کی رہنمائی کرتی ہے۔حالیہ انتخابات میں، پی ڈی پی اسمبلی میں تین نشستوں تک گھٹ گئی، لوک سبھا میں کوئی نمائندگی حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ محبوبہ مفتی، جنہوں نے اسمبلی انتخابات میں حصہ نہیں لیا، نے اپنی بیٹی التجا مفتی کو بیجبہاڑہ سے انتخابی میدان میں اترتے دیکھا، جسے پارٹی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے، لیکن التجاءکو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔پی ڈی پی کے ایک سینئر لیڈر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انکشاف کیا کہ محبوبہ مفتی کی زیر صدارت حال ہی میں ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ میں پارٹی کے انتخابی زوال کے عوامل کا تجزیہ کیا گیا۔ میٹنگ میں اتفاق رائے یہ تھا کہ پی ڈی پی کے 2014 میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ اتحاد نے خاص طور پر کشمیر میں اس کے بنیادی ووٹر بیس کو الگ کر دیا تھا۔ پچھلے5 سالوں میں کئی سینئر لیڈروں کے اخراج نے پارٹی کے ووٹ بینک کو مزید پارہ پارہ کر دیا۔ناکامیوں کے باوجود، پی ڈی پی نوجوانوں کی حمایت حاصل کرکے دوبارہ تعمیر کرنے کا ایک موقع دیکھتی ہے، جو پارٹی کے اندرونی ذرائع کے مطابق، اب بھی پارٹی کے ایجنڈے کے ساتھ گونجتے ہیں۔انہوںنے کے این اﺅکو بتایاکہ محبوبہ مفتی کا مقصد پی ڈی پی کو ایسے لیڈروں کے ساتھ دوبارہ منظم کرنا ہے جو عوام کےساتھ فعال طور پر منسلک ہو سکیں اور نچلی سطح کی برادریوں کے ساتھ پارٹی کا تعلق مضبوط کر سکیں۔ پی ڈی پی کے ایک عہدیدار نے کہاکہ ہم نوجوانوں کے لیے، نوجوانوں کے لیے ایک پارٹی بنانا چاہتے ہیں،اور اس کا مقصد خطے میں خاص طور پر کشمیر میں پی ڈی پی کے اثر و رسوخ کو بحال کرنا ہے۔سینئر رہنماو ¿ں عبدالرحمن ویری، سرتاج مدنی، حمید چوہدری، اور غلام نبی لون ہانجورہ پر مشتمل ایک پینل کو ضلعی اور علاقائی یونٹس کے قیام کا کام سونپا گیا ہے۔ یہ پینل پنچایت سطح پر کارکنوں سے رائے اکٹھا کرے گا، حالیہ انتخابات میں ووٹنگ کے نمونوں کی بنیاد پر پارٹی کے موقف اور مقامی رہنماو ¿ں کی تاثیر کا جائزہ لے گا۔
0