0

اداریہ:کیا علاقائی زبانوں کی کوئی حیثیت نہیں

اداریہ:کیا علاقائی زبانوں کی کوئی حیثیت نہیں

اسمبلی کے رواں اجلاس کے دوران بدھ کے روز جب ممبر اسمبلی مبارک گل کشمیری زبان میں بات کررہے تھے تو اسپیکر عبدالرحیم راتھر نے انہیں یہ کہہ کر بات کرنے سے روک دیا کہ ان کی تقریر ریکارڈ پر نہیں چل رہی ہے کیونکہ ایوان میں اس زبان کا کوئی مترجم موجود نہیں اس لئے وہ اس زبان کا استعمال نہ کریں۔ اس کے بعد مبارک گل نے اپنی تقریر اردو میں شروع کی حالانکہ انہیں چاہئے تھے کہ وہ اس بات پر احتجاج کرتے کہ انہیں اپنی مادری زبان میں بات کرنے سے کیوں روکا جارہا ہے جو کہ جموں کشمیر کی چار سرکاری زبانوں میں سے ایک ہے اور یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ اس زبان کا کوئی بھی مترجم ایوان میں موجود نہیں اور یہ بھی کتنابڑا المیہ ہے کہ ممبران اسمبلی اپنی زبان میں بات نہیں کررہے ہیں۔کشمیری جموں و کشمیر میں سب سے زیادہ بولی جانی والی زبان ہے۔ اس زبان کی پانچ ہزار سالہ تاریخ ہے اور اس میں بہت بڑا علمی اور ثقافتی خزانہ موجود ہے۔اردو صرف اس لئے جموں وکشمیر کی ریاست میں رائج ہوئی کہ یہ ایک رابطے کی زبان بن گئی اور مختلف علاقائی زبانیں بولنے والوں کے درمیان اسے رابطے کی کڑی بنانے کے لئے سرکاری طور پر اس کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ اس سے پہلے جموں کشمیر میں فارسی سرکاری زبان تھی چونکہ اردو کا رسم الخط اور اس کے الفاظ کا ذخیرہ فارسی سے زیادہ مستعار لیا گیا تھا اس لئے فارسی کے بجائے اسے سرکاری زبان کے طور پر رائج کرنے میں کوئی بڑی دقعت پیش نہیں آئی۔چونکہ فارسی جاننے والوں نے فوری طور پر اردو کی جانکاری حاصل کی اس لئے اسے عروج حاصل ہوا لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ علاقائی زبانوں کو اس زبان تلے کچل دیا جائے۔علاقائی زبانیں ہی جموں کشمیر کی تاریخ، تہذیب اور ثقافت کی امین ہیں۔ انہیں نذر انداز کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ جموں کشمیر اپنے عظیم تہذیبی اور ثقافتی ورثے سے ہاتھ دھونے پر تل گیا ہے۔ اسمبلی کے ایوان میں جموں کشمیر کے ہر علاقے کے لوگوں کے نمایندے موجود ہیں وہ جن علاقوں کی نمایندگی کرتے ہیں ان کی زبان کی ایک بڑی اہمیت ہے اس لئے یہ ضروری ہے کہ کم از کم سرکاری زبانوں کے مترجم وہاں دستیاب ہوں اور ممبران ان زبانوں میں ہی بات کریں۔سرکاری زبانوں میں اردو بھی شامل ہے لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ صرف اسی زبان کو اظہار کا ذریعہ بنایا جائے اور ان زبانوں کو فراموش کیا جائے جو لاکھوں لوگوں کی مادری زبان ہے۔ دنیا میں ہر جگہ لوگ اپنی مادری زبان کو ہی فوقیت دیتے ہیں اور اسی میں بات کرنا پسند کرتے ہیں کیونکہ مادری زبان کے علاوہ اظہار کا بہتر ذریعہ اور کیا ہوسکتا ہے۔کشمیری اور ڈوگری جموں کشمیر کی دو اہم سرکاری زبانیں ہیں اس لئے ان زبانوں میں اسمبلی کے ایوان میں بات ہونی چاہئے۔ حکومت کو یہ یقینی بنانا چاہئے کہ ان زبانوں میں بات کرنے میں کسی کو کوئی رکاوٹ نہ ہو اور کسی کو بھی ان زبانوں میں بات کرنے سے کسی بھی وجہ سے نہ روکا جائے۔انگریزی زبان بے شک ایک بین الاقوامی زبان ہے لیکن اسمبلی کا ایوان کوئی بین الاقوامی فورم نہیں ہے۔ یہ ایک علاقائی فورم ہے اس میں علاقائی مسائل کے اظہار کے لئے علاقائی زبانوں کا استعمال زیادہ موزوں ہوگا۔اردو بھی ایک بہت بڑی زبان ہے اور یہ ڈوگرہ دور سے جموں کشمیر کی سرکاری زبان رہی ہے لیکن اس زبان کی خاطر مادری زبانوں کو فراموش کرنا سراسر ناانصافی اور ایک بہت بڑی غلطی ہوگی۔ اس کے لئے خود ممبران اسمبلی کو بھی بات اور جدوجہدکرنی چاہئے کہ ان زبانوں کو ترقی اور عروج ملے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں