سری نگر، 11 اکتوبر (یو این آئی) جموں وکشمیر اور لداخ ہائی کورٹ نے حکومت کے اس حکم کے خلاف دائر عرضیوں کی سماعت کے لئے تین ججوں پر مشتمل فل بینچ تشکیل دیا ہے جس کے تحت 25 کتابوں کو مبینہ طور پر ‘جھوٹے بیانیے اور علاحدگی پسندی’ کو فروغ دینے کا الزام میں ضبط کیا گیا تھا۔
یہ بینچ چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم کیا گیا ہے جس میں جسٹس راجنیش اوسل اور جسٹس شہزاد عظیم شامل ہیں اور یہ بینچ پیر کے روز معاملے کی سماعت کرے گی۔
فل بینچ کی تشکیل 30 ستمبر کے عدالت کے اس مشاہدے کے بعد دی گئی جب عدالت نے کہا تھا کہ وہ عدالت تین ججوں پر مشتمل بینچ قائم کرنے پر غور کرے گی تاکہ ان کتابوں کی ‘وسیع اور غیر معقول ضبطی’ کے قانونی جواز کا جائزہ لیا جا سکے، جیسا کہ درخواست گذاروں نے بیان کیا تھا۔
یہ درخواست بھارتیہ نارگرک سرکشا سنتہا (بی این ایس ایس) 2023 کی دفعہ 99(2) کے تحت دائر کی گئی ہے اور درخواست گذاروں میں ریٹائرڈ ایئر وائس مارشل کپل کاک، مصنف ڈاکٹر سمنتر بوس، ڈاکٹر رادھا کمار اور سابق بیورو کریٹ وجاہت حبیب اللہ شامل ہیں۔
واضح رہے کہ جموں وکشمیر کے محکمہ داخلہ نے 5 اگست کو کشمیر سے متعلق 25 کتابوں کی اشاعت پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
درخواست گذاروں کا موقف ہے کہ ان 25 کتابوں کا موضوع زیادہ تر کشمیر کی سماجی و سیاسی زندگی اور اس کی تہذیبی تاریخ سے جڑی سیاسی جد وجہد پر مبنی ہے۔
ان کا کہنا ہے: ‘یہ کتابیں، جن میں سے اکثر علمی نوعیت کی ہیں، تاریخ کے شعبے میں ایک ریکارڈ کی حیثیت رکھتی ہیں’۔
ان کتابوں کے مصنفین میں ارون دھتی رائے اور اے جی نورانی شامل ہیں۔ دیگر کتابوں میں سیاسی تبصرے اور تاریخی بیانات شامل ہیں جن میں معروف آئینی ماہر نورانی کی کشمیر ڈسپیوٹ 1947-2012، کشمیر ایٹ دی کراس روڈ اینڈ کنٹیسٹڈ لینڈز از سمنترا بوس، ان سرچ آف اے فیوچر: دی کشمیر سٹوری از ڈیوڈ دیوداس، ارون دھتی رائے کی آزادی اور اے ڈسمنٹلڈ اسٹیٹ: دی انٹولڈ سٹوری از انورادھا بھسین خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
اگست میں ان 25 کتابوں پر عائد پابندی کو چلینج کرتے ہوئے ایک عوامی مفاد کی عرضی (پی آئی ایک) عدالت عظمیٰ میں دائر کی گئی تھی تاہم عدالت عظمیٰ نے عرضی گذار کو جموں وکشمیر اور لداخ ہائی کورٹ کی طرف رجوع کرنے کا مشورہ دیا تھا۔
0
