0

سب کا بیمہ سب کی رکشا’ بل کو پارلیمنٹ کی منظوری، سو فیصد تک ایف ڈی آئی کی گنجائش


نئی دہلی، 17 دسمبر (یو این آئی ) بیمہ کے شعبے میں سو فیصد براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کی گنجائش فراہم کرنے والے ‘سب کا بیمہ سب کی رکشا (انشورنس قوانین میں ترمیم) بل، 2025’ کو بدھ کے روز پارلیمنٹ کی منظوری مل گئی۔
راجیہ سبھا نے بل پر بحث اور وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن کے جواب کے بعد آج بل کو صوتی ووٹ سے پاس کر دیا۔ لوک سبھا اسے منگل 16 دسمبر کو ہی پاس کر چکی تھی۔
اس بل کا مقصد بیمہ سے متعلق تین قوانین میں ترمیم کرنا ہے۔ اس میں بیمہ شعبے میں سو فیصد براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی اجازت دینے کے علاوہ کاروبار کو آسان بنانے کے لیے اور بھی کئی اقدامات کیے گئے ہیں۔
پہلی بار یہ گنجائش فراہم کی گئی ہے کہ ایک انشورنس کمپنی کو غیر انشورنس کمپنی کے ساتھ ضم (مرج) کیا جا سکتا ہے یا اسے بیمہ اور غیر بیمہ کمپنیوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے انشورنس ریگولیٹر سے اجازت لینا ہوگی۔ اب پانچ فیصد سے کم حصص کی منتقلی کے لیے پیشگی اجازت کی ضرورت نہیں ہوگی۔ پہلے یہ حد ایک فیصد تھی۔ تمام بیمہ کمپنیوں اور ثالثوں کے لیے اپنے نام میں “بیمہ” یا “انشورنس” لفظ رکھنا لازمی ہوگا۔
ضوابط کی خلاف ورزی پر جرمانہ بڑھانے کی بھی اس بل میں گنجائش فراہم کی گئی ہے۔ زیادہ سے زیادہ جرمانہ ایک کروڑ روپے سے بڑھا کر 10 کروڑ روپے کر دیا گیا ہے۔ اب انشورنس کمپنیوں اور ثالثوں کے لیے جرمانے کے ضوابط ایک جیسے کر دیے گئے ہیں۔
پہلے جہاں بے ضابطگی پائے جانے پر ثالثوں کا لائسنس براہ راست منسوخ کر دیا جاتا تھا، اب لائسنس معطل کرنے کی گنجائش رکھی گئی ہے تاکہ انہیں اصلاح کا موقع دیا جا سکے۔
بحث کا جواب دیتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ سو فیصد ایف ڈی آئی کی اجازت دینے سے غیر ملکی کمپنیوں کے لیے ہندوستان میں آنا آسان ہوگا اور انہیں کسی مقامی شراکت دار کو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اس سے ملک میں انشورنس کوریج بڑھے گی، پریمیم میں کمی آئے گی اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔
انہوں نے اس بل کی وجہ سے لائف انشورنس کارپوریشن آف انڈیا (ایل آئی سی) کے حقوق میں کمی کے حوالے سے بعض ارکان کے خدشات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس کے برعکس اس سے ایل آئی سی کی مضبوطی ہوگی۔ اسے بیرون ملک اپنے زونل دفاتر کھولنے کے لیے پیشگی اجازت کی ضرورت نہیں ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ ملک کی ترقی کے لیے لوگوں کا بیمہ ہونا ضروری ہے۔ حکومت دیہی علاقوں میں انشورنس کوریج بڑھانے کے لیے پوری طرح پرعزم ہے۔ انفرادی صحت اور لائف انشورنس پریمیم پر جی ایس ٹی کے تحت ٹیکس کی شرح صفر کر دی گئی ہے۔ انشورنس کوریج کو مزید بڑھانے کے لیے یہ بل لایا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سال 1999 میں بیمہ شعبے کو ایف ڈی آئی کے لیے کھولا گیا اور اس کی حد 26 فیصد مقرر کی گئی۔ اس کے بعد 2015 میں اسے بڑھا کر 49 فیصد اور 2021 میں 74 فیصد کیا گیا۔ اس کے باوجود اس وقت 10 انشورنس کمپنیوں میں 26 فیصد سے کم ایف ڈی آئی ہے، 23 کمپنیوں میں 26 فیصد یا اس سے زیادہ لیکن 49 فیصد سے کم، تین میں 49 فیصد یا اس سے زیادہ لیکن 74 فیصد سے کم اور دیگر چار میں 74 فیصد ایف ڈی آئی ہے۔
محترمہ سیتا رمن نے کہا، “ملک کو بیمہ شعبے میں مزید سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔” انہوں نے بتایا کہ کم ایف ڈی آئی کی ایک وجہ یہ ہے کہ کئی غیر ملکی کمپنیاں ہندوستانی بیمہ شعبے میں آنا چاہتی ہیں، لیکن مشترکہ منصوبہ (جوائنٹ وینچر) قائم کرنے کے لیے انہیں یہاں کوئی موزوں شراکت دار نہیں مل پاتا۔
انہوں نے کہا کہ سو فیصد ایف ڈی آئی کی گنجائش فراہم کرنے سے ایسی کمپنیاں آزادانہ طور پر ملک میں انشورنس کمپنی قائم کر سکیں گی۔ اس سے مسابقت بڑھے گی اور نتیجے کے طور پر پریمیم کم ہوگا۔
روزگار چھن جانے کے اپوزیشن ارکان کے خدشات کو مسترد کرتے ہوئے محترمہ سیتا رمن نے کہا کہ اس کےبرعکس روزگار بڑھے گا۔ نئی کمپنیوں کے آنے سے بیمہ شعبے کی توسیع ہوگی، نئی مصنوعات مارکیٹ میں آئیں گی اور ان سب سے زیادہ روزگار پیدا ہوں گے۔ انہوں نے بتایا کہ سال 2015 میں ایف ڈی آئی کی حد 49 فیصد سے بڑھا کر 74 فیصد کرنے کے بعد اس شعبے میں روزگار تقریباً تین گنا ہو گیا ہے۔ یہ 31.14 لاکھ سے بڑھ کر 88.17 لاکھ ہو گیا ہے۔
انہوں نے غیر ملکی بیمہ کمپنیوں کے پیسہ لے کر بھاگ جانے کے خدشات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ انشورنس ریگولیٹر نے پہلے ہی یہ گنجائش کر رکھی ہے کہ غیر ملکی کمپنیوں کو اپنی واجب الادا رقم (لائبلٹی) سے ڈیڑھ گنا رقم ملک میں رکھنا ہوگی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں