لہیہ،18اکتوبر(یو این آئی)مرکز کے زیر انتظام خطے لداخ میں ریاستی درجہ بحالی اور آئین کی چھٹی شیڈول کے تحت خصوصی تحفظات کے مطالبات کے سلسلے میں لہیہ اپیکس باڈی اور کرگل ڈیموکریٹک الائنس کی جانب سے ہفتے کے روز مجوزہ خاموش مارچ لہیہ میں سخت پابندیوں کے باعث ناکام بنا دیا گیا، تاہم کرگل میں یہ مارچ پُرامن طور پر انجام دیا گیا۔
انتظامیہ نے لہیہ میں ممکنہ امن و قانون کے مسائل کے پیش نظر سخت سیکیورٹی انتظامات کیے، موبائل انٹرنیٹ سروس معطل کی، اور تعلیمی ادارے بند رکھنے کے احکامات جاری کیے۔ حکام کے مطابق ضلع میں بی این ایس ایس کی دفعہ 163 کے تحت امتناعی احکامات نافذ کیے گئے تاکہ امن و امان برقرار رکھا جا سکے۔
سیکیورٹی فورسز کی بھاری نفری کو لہیہ اور اس کے مضافات میں تعینات کیا گیا۔ مقامی ذرائع کے مطابق لوگوں کو 10 بجے سے دو گھنٹے کے لیے منعقد ہونے والے خاموش مارچ میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی۔
انجمن امامیہ کے صدر اور لہیہ اپیکس باڈی کے رکن اشرف علی بارچہ نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا:’ہم نے پرامن طور پر اپنی مانگوں کو اجاگر کرنے کے لیے مارچ کی اپیل کی تھی، لیکن انتظامیہ نے طاقت کے بل پر اسے روک دیا۔ یہ حکومت کی ناکامی کی نشاندہی کرتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو عوام سے بات کرنی چاہیے نہ کہ ان پر قدغنیں لگا کر ان کی آواز دبانی چاہیے۔
انجمن موئن الاسلام کے سربراہ عبد القیوم نے بتایا کہ لہیہ اپیکس باڈی کے شریک چیئرمین چیرنگ دورجے کو بھی نظر بند کر دیا گیا ہے تاکہ وہ مارچ میں شرکت نہ کر سکیں۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ کسی تصادم سے گریز کریں اور پرامن رہیں۔
انہوں نے کہا،’ہم کسی تصادم کے حامی نہیں، مذاکرات کے دروازے بند نہیں کیے جائیں گے۔ ہم جلد میٹنگ کر کے آئندہ لائحہ عمل طے کریں گے۔‘
دوسری جانب کرگل میں یہ مارچ پُرامن انداز میں منعقد ہوا۔ کرگل ڈیموکریٹک الائنس کے رہنما اصغر علی کربلائی اور سجاد کرگلی کی قیادت میں سینکڑوں افراد نے حسین پارک سے مین بس اسٹینڈ تک جلوس نکالا، جو مین بازار سے گزرا۔
شرکاء نے سیاہ پٹیاں باندھ رکھی تھیں اور اپنے ہاتھوں میں تختیاں اٹھا رکھی تھیں جن پر ریاستی درجہ بحالی اور چھٹی شیڈول کے تحت آئینی تحفظات کے مطالبات درج تھے۔
مارچ کے دوران خطاب کرتے ہوئے سجاد کرگلی نے کہا:’ہم مرکزی حکومت کے اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہیں کہ لہیہ میں 24 ستمبر کو پیش آئے فائرنگ واقعے کی عدالتی تحقیقات کا حکم دیا گیا ہے۔ تاہم ہم یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ گرفتار تمام افراد، بشمول ماحولیاتی کارکن سونم وانگچک، کو بلا شرط رہا کیا جائے اور جاں بحق افراد کے لواحقین و زخمیوں کو معاوضہ دیا جائے۔‘
اس موقع پر اصغر علی کربلائی نے کہا کہ لہیہ میں لیڈروں اور عوام پر عائد پابندیاں افسوسناک اور ناقابل قبول ہیں۔ہم ایسے جابرانہ اقدامات کو قبول نہیں کرتے۔ لداخ کے عوام پُرامن ہیں، لیکن اپنے آئینی حقوق کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ عدالتی انکوائری خوش آئند قدم ہے، لیکن حکومت کو بات چیت سے قبل دو مزید اقدامات کرنے چاہئیں — متاثرین کو معاوضہ دینا اور گرفتار شدگان کو رہا کرنا۔
کربلائی نے واضح کیا کہ لداخ کے عوام اپنی آئینی اور جمہوری مانگوں سے پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں۔ہم نہ تھکے ہیں، نہ جھکیں گے، اور اپنے جائز مطالبات کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہیں۔
انہوں نے ملک کی سول سوسائٹی کا شکریہ ادا کیا جس نے لہیہ واقعے کے بعد لداخ کے عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ ساتھ ہی مطالبہ کیا کہ ان عناصر کے خلاف کارروائی کی جائے جنہوں نے لداخ کے لوگوں کو ملک دشمن قرار دے کر ان کی شبیہہ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔
0
