0

نارملسی کا دعویٰ تبھی معتبر ہوگا جب سیاحتی مقامات مکمل طور پر کُھلیں گے: عمر عبداللہ

سری نگر،13دسمبر(یو این آئی) جموں و کشمیر میں حالات معمول پر ہونے کے دعوؤں پر سوال اٹھاتے ہوئے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ پہلگام حملے کے بعد تاحال بند سیاحتی مقامات کو کھولے بغیر نارملسی کا بیانیہ زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ان کا کہنا ہے کہ سیاحت وادی کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے اور اس کے اہم مراکز کو بند رکھنا نہ صرف سیاحوں میں بے یقینی پیدا کر رہا ہے بلکہ کشمیر کی مجموعی معاشی بحالی پر بھی منفی اثر ڈال رہا ہے۔
گلمرگ میں ایشیا کے طویل ترین اسکی ڈریگ لفٹ کا افتتاح کرنے کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ منتخب حکومت کا کام سیاحت سے متعلق بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانا اور نئی سہولیات فراہم کرنا ہے، تاہم سیاحتی مقامات کو بند کرنے یا کھولنے کا فیصلہ حکومتِ جموں و کشمیر کے اختیار میں نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے جب ایسے مقامات بند کیے جاتے ہیں تو منتخب حکومت سے کوئی مشاورت بھی نہیں کی جاتی۔
عمر عبداللہ نے کہا کہ اگر وہ خود یہ فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوتے تو اب تک تمام سیاحتی مقامات کھول دیے گئے ہوتے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ رواں سال 22 اپریل کو پہلگام کے بیسرن میں دہشت گردانہ حملے کے بعد، جس میں زیادہ تر سیاحوں سمیت 26 افراد جاں بحق ہوئے تھے، لیفٹیننٹ گورنر انتظامیہ نے سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر متعدد سیاحتی مقامات بند کر دیے تھے۔ اگرچہ ان میں سے کچھ مقامات کو مرحلہ وار دوبارہ کھولا گیا، تاہم کئی اہم مقامات تاحال بند ہیں۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ جموں و کشمیر اس سے کہیں زیادہ سنگین حالات سے بھی گزر چکا ہے، مگر ماضی میں کبھی سیاحتی مقامات مکمل طور پر بند نہیں کیے گئے۔ انہوں نے 1996 کے بعد سیاحت کی بحالی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اُس وقت حالات آج کے مقابلے میں کہیں زیادہ خراب تھے، اس کے باوجود کسی سیاحتی مقام کو بند کرنے کا فیصلہ نہیں کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ مرکز نے کئی معاملات میں تعاون کیا ہے، تاہم اصل مسئلہ سیاحتی مقامات کی مسلسل بندش ہے، جس کی وجہ سے سیاحوں میں بے یقینی اور کنفیوژن پیدا ہو رہا ہے۔ عمر عبداللہ نے سوال اٹھایا کہ آخر کب تک یہ مقامات بند رکھے جائیں گے۔ ایک طرف دنیا کو یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ جموں و کشمیر میں حالات معمول پر آ چکے ہیں، جبکہ دوسری جانب گلمرگ، پہلگام اور دودھ پتھری کے بڑے حصے بدستور بند ہیں۔
وزیر اعلیٰ نے واضح کیا کہ جب تک سیاحتی مقامات مکمل طور پر نہیں کھولے جاتے، حالات کی بہتری کا دعویٰ بے معنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر یا تو اسمبلی کی سطح پر یا پھر مرکز کی سطح پر سنجیدہ نظرِ ثانی کی ضرورت ہے تاکہ کوئی حتمی فیصلہ سامنے آ سکے۔
عمر عبداللہ نے کہا کہ پہلگام حملے، سیلاب، دہلی دھماکے اور نوگام کے حادثاتی دھماکے جیسے واقعات کے باوجود حکومت نے سیاحت کو فروغ دینے کے لیے مسلسل کوششیں جاری رکھی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آج گلمرگ اور پہلگام جیسے مقامات نہ صرف ملک کے اندر بلکہ عالمی سطح پر سیاحتی مراکز کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملکی سیاح دنیا بھر میں سفر کرتے ہیں، ایسے میں جموں و کشمیر کو بھی اپنی سیاحتی سہولیات اور بنیادی ڈھانچے کو مسلسل بہتر بنانا ہوگا۔ وزیر اعلیٰ کے مطابق گلمرگ میں کچھ منصوبوں کا افتتاح کیا گیا ہے جبکہ بعض نئے منصوبوں کے سنگ بنیاد بھی رکھے گئے ہیں، اور یہی عمل دیگر سیاحتی مقامات پر بھی جاری رہے گا۔
برفباری نہ ہونے پر اظہارِ افسوس کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ اس موسمِ سرما میں اب تک برف نہیں پڑی، جس کا سب کو شدت سے انتظار ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاح بار بار یہی سوال کرتے ہیں کہ کیا برف پڑی ہے، اور جواب میں کہا جاتا ہے کہ ابھی نہیں۔ وہ ہنستے ہوئے کہتے ہیں کہ جب برف پڑے تو ہمیں ضرور بتانا۔
ریاستی درجہ کی بحالی سے متعلق سوال پر وزیر اعلیٰ نے مزاحیہ انداز میں کہا کہ پہلے برف پڑنے دیں، اس کے بعد ریاستی درجہ پر بات کریں گے۔
بجلی کی کٹوتی کے بارے میں بات کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ بعض اوقات مرمتی کاموں کی وجہ سے بجلی کی بندش ناگزیر ہوتی ہے اور عوام کو چاہیے کہ بجلی کا استعمال احتیاط سے کریں۔ انہوں نے کہا کہ جہاں درست کھپت ناپی نہیں جا رہی اور بجلی کے میٹر نصب نہیں ہیں، وہاں نظام پر دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت بجلی کی طلب پوری کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے کیونکہ فراہم کی جانے والی بجلی کے عوض مناسب آمدنی حاصل نہیں ہو پا رہی، جس کے نتیجے میں حکومت کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں