اقوام متحدہ، 4 اکتوبر (یو این آئی) حماس کی جانب سے امریکی صدر کے غزہ امن منصوبے پر پر مثبت رد عمل کے سلسلے میں بین الاقوامی سطح پر خیر مقدم کا سلسلہ جاری ہے۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے جمعہ کو حماس کے اس اعلان کا خیر مقدم کیا کہ وہ ٹرمپ کے منصوبے کے تحت قیدیوں کو رہا کرنے کے لیے تیار ہے۔ گوتریس کے ترجمان اسٹیفن ڈوژارک نے ایک بیان میں کہا “سیکریٹری جنرل فلسطینی تنظیم حماس کے بیان کا خیر مقدم کرتے ہیں جس میں قیدیوں کی رہائی اور اس حوالے سے مذاکرات میں شمولیت کی آمادگی ظاہر کی گئی ہے، یہ ایک حوصلہ افزا پیش رفت ہے”۔ انھوں نے تمام فریقوں پر زور دیا کہ وہ “غزہ میں جاری الم ناک جنگ ختم کرنے کے اس موقع سے فائدہ اٹھائیں”۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے کہا ہے کہ حماس کے مثبت ردِ عمل کے بعد قیدیوں کی رہائی اور غزہ میں جنگ بندی اب “قریب آ گئی” ہے۔ انہوں نے “ایکس” پر لکھا کہ “غزہ میں تمام قیدیوں کی رہائی اور جنگ بندی ہمارے ہاتھ میں ہے”۔
جرمن چانسلر فریڈرِش میرٹس نے بھی کہا کہ “غزہ میں امن اور قیدیوں کی رہائی ہمارے قریب ہے”۔ انھوں نے “ایکس” پر تحریر کیا “قیدیوں کو رہا کیا جانا چاہیے۔ حماس کو ہتھیار ڈالنے چاہئیں اور لڑائی فوراً رکنی چاہیے۔ یہ سب تیزی سے ہونا چاہیے”۔ انھوں نے مزید کہا کہ “تقریباً دو برس بعد یہ امن کے لیے بہترین موقع ہے”۔
برطانوی وزیرِ اعظم کیئر اسٹامر نے کہا کہ حماس کی امریکی منصوبے پر رضامندی “غزہ میں جنگ کے خاتمے کی کوششوں میں ایک اہم قدم” ہے۔ اپنے بیان میں انھوں نے کہا کہ ٹرمپ کی تجویز نے “ہمیں امن سے پہلے سے کہیں زیادہ قریب کر دیا ہے”۔ اسٹامر نے تمام فریقوں سے مطالبہ کیا کہ وہ معاہدے پر فوراً عمل درآمد کریں۔
ترک صدر رجب طیب اردوآن نے کہا کہ ٹرمپ کے منصوبے پر حماس کا ردِ عمل مستقل امن کے حصول کی راہ میں ایک مثبت اور اہم قدم ہے۔ انھوں نے ایک پوسٹ میں زور دیا کہ اب اسرائیل کو فوراً اپنی تمام کارروائیاں روکنی چاہئیں اور جنگ بندی کے منصوبے پر عمل درآمد کرنا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ انسانی امداد کی فراہمی اور پائے دار امن کے قیام کے لیے تمام اقدامات میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔
حماس کی جانب سے منظوری کے فوراً بعد امریکی صدر نے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ “فوری طور پر” غزہ پر بم باری روک دے۔ حماس نے اعلان کیا کہ وہ تمام قیدیوں کو رہا کرنے اور غزہ کا انتظام “آزاد شخصیات” پر مشتمل ایک انتظامیہ کے حوالے کرنے پر راضی ہے۔
یہ اس منصوبے کی دو بنیادی شقیں ہیں اور ان کو اسرائیل کی حمایت بھی حاصل ہے۔ تاہم تنظیم نے زور دیا کہ “غزہ کے مستقبل” سے متعلق دیگر نکات پر مذاکرات ضروری ہوں گے۔
0
