0

چرار شریف میں عرس حضرت شیخ نورالدین نورانی(رح) کی تیاریاں شروع،خواتین نصف شب نعتیہ کلام پڑھ کر فضا کو معطر کرتی ہیں

سری نگر،26ستمبر(یو این آئی) یوں تو وادی کشمیر کے گوشہ و کنار میں اولیا عظام کی قیام گاہیں موجود ہیں جہاں سال بھرعقیدت مندوں کا تانتا بندھا رہتا ہے تاہم وسطی کشمیر کے ضلع بڈگام میں واقع قصبہ چرار شریف اس ضمن میں خاص طور پر قابل ذکر ہے۔
سری نگر سے محض 25 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہیہ قصبہ علمدار کشمیر حضرت شیخ نور الدین نورانی(رح) المعروف نند ریشی کے آستانہ عالیہ کی نسبت سے نہ صرف کشمیر بلکہ برصغیر میں شہرت رکھتا ہے جہاں ہر سال ان کے سالانہ عرس کے موقع پر لاکھوں کی تعداد میں عقیدت مند حاضری دیتے ہیں۔
حسب معمول امسال بھی چرار شریف میں عرس نورالدین نورانی(رح) کی تیاریاں شروع ہو چکی ہیں اور اس بار بھی ایک پرانی روایت کو زندہ کرتے ہوئے خواتین نے نصف شب آستانہ عالیہ پر حاضری دینا شروع کر دی ہے۔ یہ روایت کم و بیش دو سے تین صدیوں سے جاری ہے، جس کے تحت قصبے کی خواتین عرس سے ایک ماہ قبل رات کے پچھلے پہر سے نماز فجر تک آستانے پر حاضر ہو کر اللہ کے حضور سربسجود ہوتی ہیں، نعت و منقبت خوانی کرتی ہیں اور حضرت شیخ نور الدین نورانی(رح) کے کلام سے فضا کو معطر کر دیتی ہیں۔
چرار شریف آستانہ عالیہ کے متولی حاجی یونس جان نے یو این آئی کو بتایا کہ ‘ یہ روایت آج بھی اسی عقیدت اور احترام کے ساتھ قائم ہے جیسے ماضی میں تھی۔
انہوں نے کہا: ‘یہاں کی خواتین ایک ماہ تک مسلسل نصف شب کو آستانہ پر آ کر ذکر و اذکار اور دعا ومناجات میں محو رہتی ہیں۔ یہ روایت دو سے تین سو سال پرانی ہے اور خواتین اسے نسل در نسل نبھا رہی ہیں۔ وہ اپنے گھروں کے کام کاج سے فارغ ہو کر رات کے تین بجے آتی ہیں اور نماز فجر تک یہ محفل جاری رہتی ہیں’۔
انہوں نے بتایا کہ خواتین امن و سکون، شانتی اور وادی میں خوشحالی کے لئے دعائیں کرتی ہیں، یہ خواتین صرف اپنے گھروں یا خاندان کے لئے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لئے دعا کرتی ہیں۔ یہی اس روایت کی سب سے بڑی خوبی ہے۔
موصوف متولی نے کہا کہ جموں وکشمیر کی وقف بورڈ چیئرپرسن ڈاکٹر درخشان اندرابی نے یہاں خواتین کے لئے ایک الگ کمرہ تعمیر کرایا ہے تاکہ وہ وہاں پر نعت خوانی کا اہتمام کر سکیں۔
انہوں نے کہا کہ اب خواتین بارش، سردی یا ہجوم کے باوجود سکون سے اپنی عبادات کر سکتی ہیں، جو کہ ایک مثبت قدم ہے۔
عرس کی تیاریوں میں مصروف ایک مقامی خاتون شاہینہ بانو نے یو این آئی سے بات کرتے ہوئے کہا:’ہمارے بزرگوں نے ہمیں یہ روایت سونپی ہے کہ عرس سے پہلے ایک مہینہ ہم راتوں کو اللہ کے حضور دعاؤں میں گزاریں۔ یہ ہمارے لئے سعادت ہے۔ ہم اپنے بچوں، اپنے علاقے اور پوری وادی کے لئے امن و سکون مانگتے ہیں’۔
ایک اور خاتون رفیقہ جان کا کہنا تھا:’ہم یہاں نہ صرف ذکر و اذکار کرتے ہیں بلکہ حضرت شیخ نور الدین نورانی(رح) کا کلام پڑھ کر دلوں کو سکون ملتا ہے۔ ان کے اشعار انسان کو بھائی چارے اور محبت کا پیغام دیتے ہیں، جو آج کے دور میں سب سے زیادہ ضروری ہے’۔
چرار شریف کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ خواتین کی یہ شب بیداری قصبے میں ایک خاص روحانی ماحول پیدا کرتی ہے۔ رات کے وقت جب قصبہ خاموشی میں ڈوبا ہوتا ہے تو آستانے سے اٹھنے والی نعت خوانی اور ذکر کی صدائیں ایک عجیب کیفیت طاری کر دیتی ہیں۔
ایک عمر رسیدہ عقیدت مند نے کہا: ‘یہ ماحول ہماری نئی نسل کے لئے بھی ایک سبق ہے کہ روحانیت اور دعا سے ہی زندگی کو سکون مل سکتا ہے۔‘
خواتین کی یہ عبادات عرس کی تقریبات کے ساتھ ختم نہیں ہوتیں بلکہ وہ دیگر زیارت گاہوں پر بھی حاضری دیتی ہیں۔
متولی یونس جان کے مطابق عرس کے اختتام کے بعد خواتین قریبی آستانوں، خاص طور پر’صدر موجؒ اور دیگر بزرگانِ دین کے آستانوں پر بھی جاتی ہیں۔ یہ ایک طرح سے روحانی سفر کا تسلسل ہے۔‘
چرار شریف کا سالانہ عرس محض ایک مذہبی اجتماع نہیں بلکہ وادیٔ کشمیر کی روحانی روایت اور ثقافتی پہچان کی علامت ہے۔ یہاں کی خواتین نے اس روایت کو صدیوں سے اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا ہے اور آج بھی اسی خلوص اور محبت سے اللہ کے حضور دعائیں کرتی ہیں۔ ان کی شب بیداریاں اور دعائیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ کشمیر کی سرزمین روحانیت، صبر اور عقیدت میں اپنی مثال آپ ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں