0

کشمیر میں ندرُو کی کاشتکاری سینکڑوں گھرانوں کی روزی روٹی کا وسیلہ

سری نگر،12دسمبر(یو این آئی) وادی کشمیر میں صدیوں پرانی ذائقے کی علامت اور ہر گھر کی پسندیدہ سبزی ‘ندرو’ کی کاشتکاری تواتر کے ساتھ کئی گھرانوں کے روزگار کا موثر وسیلہ ہے۔
ندرُو کو پانی سے نکالنے کا عمل محض محنت نہیں بلکہ محبت ہے، اور یہ محبت نسلوں سے کشمیر کی ہتھیلیوں میں چلتی چلی آرہی ہے۔
جھیل ڈل کے معروف ندرُو کاشتکار غلام نبی کہتے ہیں: ‘ندرُو نکالنا موج نہیں، سخت سردی میں ہاتھ سن ہوجاتے ہیں، لیکن یہ ہمارا روزگار بھی ہے اور ہماری پہچان بھی’۔۔
ان کے پاس کھڑا راجہ فیاض مسکرا کر کہتے ہیں:’ اصل ندرُو کی پہچان اس کی صاف گرہ اور اندرونی نرمی ہے،’ندرو کو سمجھنے کے لیے برسوں پانی کی خوشبو سونگھنی پڑتی ہے، تب کہیں جا کر اس کی اصل پہچان سامنے آتی ہے’۔
کشمیر کے کھانوں میں ندرُو کو ایک ایسا مقام حاصل ہے جسے کوئی بدل نہیں سکتا۔ یخنی میں ڈوبا ہوا سفید ندرُو ہو یا تیز تڑکے والی تل والی ڈِش، یا پھر ہانڈ چمن کے ساتھ اس کی خفیف کرکرا خوشبو— ہر کشمیری کے لیے یہ ذائقہ گھر کی یاد ہے۔ بزرگ عورتیں اکثر ہنستے ہوئے کہتی ہیں، نرم ندرُو ہو تو ساری ڈش سنور جاتی ہے، ورنہ سارا کھانا روٹھ جاتا ہے۔
گزشتہ چند برسوں میں ندرُو کی قیمت میں حیران کن اتار چڑھاؤ دیکھا گیا ہے۔ سردیوں میں جب جھیلیں ٹھنڈی ہوجاتی ہیں تو پیداوار کم ہوتی ہے اور قیمت 300 سے 450 روپے فی کلو تک پہنچ جاتی ہے۔
سری نگر کے ریڈی مارکیٹ میں بیٹھے دکاندار حکیم جان نے بتایا: ‘ندرو ایسا مال ہے کہ گرمی ہو یا سردی، لوگوں نے تو لینا ہی لینا ہے۔ قیمت بڑھے تو شکوہ کرتے ہیں لیکن خالی ہاتھ نہیں جاتے’۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ندرُو کی خوشبو اب صرف کشمیر تک محدود نہیں رہی۔ دبئی، مسقط، دوحہ، لندن، نیویارک اور کینیڈا میں موجود کشمیری کمیونٹی ندرُو کو صرف سبزی نہیں بلکہ اپنے گھر کا دیا ہوا تحفہ سمجھتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ندرُو صرف ذائقے کا خزانہ نہیں بلکہ فائبر، منرلز، وٹامنز اور کم کیلوری کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ندرو دل کے مریضوں کے لیے بھی اچھا ہے، شوگر والوں کے لیے بھی، اور بچوں کے لیے تو خاص فائدہ مند ہے۔ اس لحاظ سے ندرُو صرف ایک ثقافتی ورثہ نہیں بلکہ صحت مند خوراک کا بھی حصہ ہے۔
علی محمد نامی ایک کاشتکار کا کہنا ہے کہ اس صنعت میں وسعت کی گنجائش بے تحاشا ہے۔ اگر جدید پیکنگ، کولڈ اسٹوریج اور پروسیسنگ یونٹس قائم ہوں تو ندرُو کو بھی عالمی برانڈ بنایا جاسکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں