0

کشمیر: پہلگام حملے کے پانچ ماہ بعد بھی مغل باغات اور جھیل ڈل سنساں

سری نگر،28ستمبر(یو این آئی) وادی کشمیر کے شہرہ آفاق سیاحتی مقامات کے ساتھ ساتھ تاریخی حیثیت کے حامل مغل باغات اور جھیل ڈل میں بھی پہلگام حملے کے پانچ ماہ بیت جانے کے بعد بھی سناٹا چھایا ہوا ہے اور ملکی و غیر ملکی سیاح کیا مقامی سیاح بھی بہت کم نظر آتے ہیں۔
سری نگر میں واقع مشہور مغل باغات نشاط اور شالیمار میں روزانہ ہزاروں سیاحوں کا تانتا بندھتا تھا۔ نشاط باغ کے گیٹ پر موجود ٹکٹ کاؤنٹر پر ہر روز اتنی بھیڑ ہوتی تھی کہ تل دھرنے کی جگہ نہیں ملتی تھی۔ مگر آج وہاں صرف اکا دکا مقامی سیاح ہی دکھائی دیتے ہیں۔
ٹکٹ کاؤنٹر پر تعینات ایک سینئر عہدیدار نے یو این آئی کو بتایا: ‘پہلگام حملے سے پہلے روزانہ دس سے بارہ ہزار سیاح باغات کا رخ کرتے تھے، لیکن اب یہ تعداد گھٹ کر صرف دو فیصد رہ گئی ہے۔ اس کمی سے ہمیں زبردست نقصان پہنچا ہے۔ ہفتے اور اتوار کو مقامی لوگ ہی کبھی کبھار باغات کی سیر کو آتے ہیں، لیکن غیر مقامی سیاح تقریباً غائب ہو چکے ہیں’۔
انہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ فوری اقدامات اٹھا کر غیر ملکی اور ملکی سیاحوں کا اعتماد بحال کرے، ورنہ سیاحت پر منحصر ہزاروں خاندان فاقہ کشی کا شکار ہو جائیں گے۔
شہرہ آفاق اور دلکش جھیل ڈل، جو کشمیر کی پہچان سمجھی جاتی ہے، بھی سنساں نظر آ رہا ہے۔ پانی پر تیرتے شاندار شکارے، جو ہمیشہ سیاحوں سے بھرے رہتے تھے، آج کنارے پر خالی کھڑے ہیں۔
غلام نبی نامی ایک شکارا والے نے افسردگی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا:’پہلگام حملے سے پہلے اتنا رش ہوتا تھا کہ ہمیں آرام کا وقت بھی نہیں ملتا تھا۔ اب دن بھر ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں۔ ہماری ساری روزی روٹی سیاحتی شعبے پر منحصر ہے۔ اگر سرکار نے فوری اقدامات نہیں اٹھائے تو ہمارے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ جائیں گے’۔
نشاط باغ کے مین گیٹ کے نزدیک ٹوپیاں اور دیگر ہینڈی کرافٹ مصنوعات فروخت کرنے والے محمد اقبال بٹ نے یو این آئی بتایا کہ پہلگام حملے کے بعد کاروبار بالکل ختم ہوگیا ہے۔
انہوں نے کہا: ‘ہم صبح سے شام تک دکان پر بیٹھے رہتے ہیں مگر کچھ بھی نہیں بکتا۔ اب ہم اپنے بچوں کی اسکول فیس بھی ادا کرنے کے قابل نہیں ہیں۔’
ان کا کہنا تھا: ‘سرکار کے دعوے کاغذی ہیں، زمینی حقیقت یہ ہے کہ غیر مقامی سیاحوں کی تعداد ایک یا دو فیصد سے زیادہ نہیں’۔
ان کے مطابق ہینڈی کرافٹ کے شعبے سے وابستہ کاریگر ذہنی دباؤ اور مایوسی کا شکار ہو گئے ہیں۔ کئی کاریگر اپنے کام چھوڑنے پر مجبور ہیں کیونکہ ان کی محنت کے خریدار موجود نہیں۔
نشاط باغ کے قریب ہی کلفی بیچنے والے نذیر احمد نے اپنی بے بسی بیان کرتے ہوئے کہا: ‘پہلگام حملے سے پہلے روزانہ اچھی کمائی ہوتی تھی۔ اب سیاح ہی نہیں آتے تو ہم کیا کمائیں اور گھر والوں کو کیا دیں؟ شام کو خالی جیب گھر لوٹنا معمول بن گیا ہے’۔
یہی صورتحال سری نگر کے دیگر صحت افزا مقامات، بشمول شالیمار باغ، چشمہ شاہی اور دیگر مقامات کی ہیں۔ جہاں کبھی ہوٹل، ریستوران اور ہاؤس بوٹس بکنگ سے بھرے رہتے تھے، آج وہاں سنّاٹا چھایا ہوا ہے۔
سیاحتی شعبے سےوابستہ افراد کا کہنا ہے کہ ایک واقعہ نے پورے انڈسٹری کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ہوٹل مالکان کے مطابق ان کی بکنگ تقریباً منسوخ ہو چکی ہیں۔ ٹیکسی ڈرائیوروں کے پاس سواری نہیں، گائیڈ حضرات بے روزگار ہو گئے ہیں اور ہاؤس بوٹ مالکان اپنی کشتیوں کو خالی کھڑا دیکھ کر مایوس ہیں۔
ایک ہوٹل مالک نے بتایا:’سیاحتی سیزن ہمارے لیے سال بھر کا سہارا ہوتا ہے، لیکن رواں سال حالات نے سب کچھ تباہ کر دیا۔ سیاح خوفزدہ ہیں اور بکنگ کینسل کر رہے ہیں۔‘
کشمیر کی معیشت کا بڑا حصہ براہِ راست یا بالواسطہ طور پر سیاحت پر منحصر ہے۔ لاکھوں افراد اس صنعت سے جڑے ہوئے ہیں۔ پہلگام حملے کے بعد سیاحت میں جو کمی آئی ہے اس نے مقامی معیشت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ سبزی فروش سے لے کر ہوٹل مالک تک سبھی متاثر ہو رہے ہیں۔
سیاحتی شعبے سے وابستہ لوگوں نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ فوری طور پر مہمات اور تشہیری پروگرام شروع کرکے سیاحوں کا اعتماد بحال کیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ زمینی سطح پر سیکیورٹی کو مزید سخت بنانے کے ساتھ ساتھ میڈیا اور ٹریول ایجنسیوں کے ذریعے ایک مثبت پیغام دنیا تک پہنچانا لازمی ہے۔
ایک مقامی ٹریول ایجنٹ نے کہا:’سرکار کو ہنگامی بنیادوں پر قدم اٹھانے ہوں گے۔ صرف دعوے اور بیانات کافی نہیں۔ جب تک غیر ملکی اور ملکی سیاح خود کو محفوظ محسوس نہیں کریں گے، تب تک وادی کی معیشت کو بچانا مشکل ہوگا’۔
یہ صورتحال نہ صرف وادی کے سیاحتی شعبے بلکہ مجموعی معیشت کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔ کشمیر کے باسی آج بھی امید لگائے بیٹھے ہیں کہ امن و سکون قائم ہو اور دوبارہ وہ دن لوٹ آئیں جب دنیا بھر سے سیاح وادی کی حسین فضاؤں کا رخ کرتے تھے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں