0

کیا ٹرمپ دنیا کو نئی شکل دینا چاہتے ہیں؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مبینہ طور پر ایک نئے عالمی اتحاد ‘سي5’، یا ‘کور فائیو’، کوعالمی طاقتوں کے فورم کے طورپر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ جس میں امریکہ، روس، چین، ہندوستان اور جاپان کو شامل کیا جائےگا۔ موجودہ یورپ کے زیر تسلط جي7 اور دیگر روایتی جمہوریت اور دولت پر مبنی تنظیموں کو سائیڈ لائن کرنے کي کوشش کي جائےگي۔ امریکہ کی نئی قومی سلامتی کی حکمت عملی (این ایس ایس) کے اجراء نے دنیا بھر میں ہلچل مچادی جس میں چین کا مقابلہ کرنے کی پالیسی اور یورپ کے دفاع سے امریکہ کی دستبرداری جیسے متنازعے موضوعات بھی شامل ہیں۔ تاہم، اس دستاویز کے بہت سے پہلوؤں کو عام نہیں کیا گیا ہے، یا اگرعام کیا گیا ہے تو ان پر بہت کم بحث کی گئی ہے۔
اس میں ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے منصوبہ بندی کی کئی بڑی تبدیلیاں شامل ہیں۔ اس میں سی-5 کا ذکر ہے جس نے دنیا بھر کے دفاعی ماہرین کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ہے۔ جب کہ عوامی دستاویز میں یورپی سلامتی سے امریکہ کے انخلا کا مطالبہ کیا گیا ہے، دیگر نامعلوم عناصر میں ” یورپ کو دوبارہ عظیم بنائیں” کا اقدام بھی شامل ہے۔ تفصیلی دستاویز یورپ کے مستقبل پر امریکہ کے نظریاتی غلبے پر زور دیتی دکھائی دیتی ہے۔ مسودے میں کہا گیا ہے کہ یورپ کو “امیگریشن پالیسی اورآزادی اظہار پر سنسر شپ” کی وجہ سے “تہذیبی بحران” کا سامنا ہے۔ لہذا، واشنگٹن کو آسٹریا، ہنگری، اٹلی اور پولینڈ جیسے ممالک کے ساتھ گہرے تعلقات استوار کرنے چاہیں۔
سی-5 بنانے کی تجویز کیا ہے؟
این ایس ایس کے لیک ہونے والے مسودے میں عالمی طاقتوں کے درمیان طاقت کے توازن کے لیے ایک دلچسپ تجویز بھي شامل ہے۔ اس میں ایک نئی تنظیم، سی-5 کی تشکیل کا مطالبہ کیا گیا ہے، جو جی7 یا جی20 جیسے اقتصادی یا جمہوری معیار پر مبنی نہیں ہوگي، بلکہ یہ دنیا کے پانچ سب سے زیادہ آبادی والے اورطاقتور ممالک: امریکہ، چین، روس، ہندوستان اور جاپان کے لیے ایک فورم ہو گا۔ ٹرمپ انتظامیہ کے اس منصوبے کے مطابق سی5 باقاعدہ سربراہ اجلاس بھی منعقد کرے گا اور بڑے جغرافیائی اور سیاسی مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس کی پہلی ملاقات کا مجوزہ ایجنڈا بھی دستاویز میں شامل ہے جس میں اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ روس کو جی 8 سے نکالنے کی مخالفت کرچکے ہیں۔ روس کو 2014 میں یوکرین کے کریمیا علاقے پر حملے کے بعد جی ایٹ سے نکال دیا گیا تھا۔ مزید برآں، ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کا خیال ہے کہ دوسرے ممالک پرامریکی تسلط برقرار رکھنا ناممکن ہے۔ دستاویز میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ”امریکی تسلط کو برقرار رکھنا نہ تو ممکن ہے اور نہ ہی دانشمندانہ”۔ دستاویز میں کہا گیا ہے کہ “سرد جنگ کے خاتمے کے بعد، امریکی پالیسی سازوں نے تسلیم کیا تھا کہ دنیا میں مستقل امریکی تسلط قومی مفاد کے لیے ضروری ہے۔” تاہم، دستاویز میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کو کسی دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں صرف اس وقت مداخلت کرنی چاہیے جب وہ ملک امریکی قومی سلامتی کے لیے براہ راست خطرہ بنے۔
این ایس ایس واضح طور پر کہتا ہے کہ “ٹرمپ انتظامیہ کو ایک ایسی دنیا وراثت میں ملی ہے جس میں جنگ کی بندوقوں نے متعدد براعظموں کے بہت سے ممالک میں امن اور استحکام کو تباہ کردیا ہے۔ اس بحران کو کم کرنے میں ہماری فطری دلچسپی ہے۔” دستاویز میں مزید کہا گیا ہے کہ “یہ سب کچھ صرف امریکہ پر منحصر نہیں ہونا چاہئے، لیکن ساتھ ہی چین اور روس کو بھی امریکی قیادت پر قبضہ کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔” حکمت عملی استحکام کو برقرار رکھنے میں مدد کے لیے “علاقائی طاقتوں” کے ساتھ شراکت کا مشورہ دیتی ہے۔
کیا ٹرمپ جی-7 کو ختم کرنا چاہتے ہیں؟
آپ کو بتاتے چلیں کہ روس کے انخلاء کے بعد جی-7 امریکہ کی قیادت میں کام کر رہا ہے جو کہ ایک طاقتور گروپ ہے۔ جی-7 جمہوری ممالک کا ایک ایسا گروپ ہے، جو اپنی مرضی کے مطابق عالمی معیشت کی پالیسی بناتا ہے اور دیگر جغرافیائی سیاسی مسائل کو حل کرنے کا دعویٰ بھی کرتا ہے۔ تاہم، جی-20 اور برکس جیسی بااثر تنظیموں کی موجودگي میں، جی-7 کے اثر و رسوخ پر سنگین سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ ایسے میں ماہرین کا خیال ہے کہ اگر سی -5 بنتا ہے تو جی-7 کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ جی-7 گروپ میں امریکہ، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان اور برطانیہ شامل ہیں۔ اگرچہ ابھی تک اس معاملے پر کوئی باضابطہ رد عمل سامنے نہیں آئے ہیں۔
امریکی اشاعت پولیٹیکو مگزيں نے اطلاع دی ہے کہ نئے ہارڈ پاور گروپ کا خیال قومی سلامتی کی حکمت عملی کے ایک طویل، غیر مطبوعہ ویژن کے طور پر سامنے آیا ہے جسے وائٹ ہاؤس نے گزشتہ ہفتے شائع کیا تھا۔ پولیٹیکو کے مطابق، وائٹ ہاؤس نے اس دستاویز کی موجودگی سے انکار کیا ہے، پریس سیکرٹری ہننا کیلی نے اصرار کیا کہ 33 صفحات پر مشتمل سرکاری منصوبے کا “کوئی متبادل، نجی یا خفیہ ورژن” موجود نہیں ہے۔ تاہم، قومی سلامتی کے ماہرین کا خیال ہے کہ اس مجوزہ منصوبے اور سی5 کی تشکیل موجودہ وائٹ ہاؤس کے لیے موزوں بن سکتی ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کے دوران امریکی قومی سلامتی کونسل میں یورپی امور کے ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دینے والے ٹوری توسِگ کے بقول “یہ ہمارے خیال سے مطابقت رکھتا ہے کہ صدر ٹرمپ مضبوط کھلاڑیوں کے لیے ہمدردی اور دیگر عظیم طاقتوں کے ساتھ تعاون کرنے کے رجحان کے ذریعے دنیا کو دیکھتے ہیں، جو غیر نظریاتی ہے۔” انہوں نے مزید نوٹ کیا کہ نظریاتی سی5 میں یورپ کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے، “جس سے، میرا اندازہ ہے کہ، یورپیوں کو یہ یقین دلائے گا کہ یہ انتظامیہ روس کو ایک سرکردہ طاقت کے طور پر دیکھتی ہے جو یورپ میں اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرنے کے قابل ہے۔
” پہلی ٹرمپ انتظامیہ کے دوران امریکی ریپبلکن سینیٹر ٹیڈ کروز کے معاون مائیکل سوبولک نے نوٹ کیا کہ سی5 کی تخلیق صدر کے طور پر ان کی پہلی مدت میں ٹرمپ کی چین پالیسی سے الگ ہوگی۔ انہوں نے کہا، “پہلی ٹرمپ انتظامیہ نے زبردست طاقت کے مقابلے کے تصور پر عمل کیا اور اسی طرح ہم نے چین کے ساتھ تعلقات کو ترتیب دیا اور اس پر تبادلہ خیال کیا… یہ اس پرانے نظریئے سے ایک بہت بڑی رخصتی ہے۔” اتحادیوں کے خدشات کے مطابق رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب واشنگٹن پہلے ہی اس بات پر بحث کر رہا ہے کہ دوسری ٹرمپ انتظامیہ عالمی نظام کو کس حد تک خراب کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہ خیال موجودہ فورمز جیسے جی7 اور جی20 کو کثیر قطبی دنیا کے لیے ناکافی قرار دیتا ہے، جو بڑی آبادی اور فوجی-اقتصادی طاقتوں کے درمیان ڈیل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ امریکی اتحادی اس اقدام کو “طاقتور” کی قانونی حیثیت کے طور پر دیکھتے ہیں جو روس کو یورپ پر غالب کر رہا ہے اور ممکنہ طور پر مغربی اتحاد اور نیٹو کی ہم آہنگی کو کمزور کر رہا ہے۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ٹرمپ کا یہ نیا شوشہ عالمی سیاست اور حقیقت کی ترجمانی کرتا نظر آتا ہے۔ ویسے تو ٹرمپ کے اب تک کئے جانے والے فیصلوں کو کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن یہ شاید پہلا موقع ہے کہ جب ٹرمپ کے کسی منصوبے کو حقیقت اور سچائی پر مبنی قرار دیا جاسکتا ہے۔ اب تک جس طریقے سے امریکہ نے مختلف ممالک میں گزشتہ کئی دہائیوں سے امن و امان کو اپنے مفاد کی خاطر ختم کیا ہے، اس کو تسلیم کرنے کا اور ختم کرنے کا شاید یہ پہلا موقع ہے۔ یعنی کہ ٹرمپ جنہیں ایک تاجرکے طور پر دیکھا جاتا ہے اور جن کے زیادہ تر فیصلوں پر تنقید ہوئی ہے، انہوں نے بھی حقیقت کا سامنا کرتے ہوئے تاریخ میں پہلی مرتبہ بطور ایک امریکی سیات داں وہ بات کہی ہے جو کہ امریکہ مخالف افراد اور تنظیمیں کئی دہائیوں سے کہتی چلی آرہی تھیں لیکن اس میں ٹرمپ کا تاجرانہ نظریہ سرفہرست ہے کیوں کہ وہ یوروپ اور دیگر ممالک سے امریکی افواج کو واپس بلاکر امریکہ کا دفاعی بجٹ کم کرنا چاہتے ہیں اور اس رقم کو امریکہ کو ماگا بنانے کے لئے صرف کرنا چاہتے ہیں۔ اس تجویز سے ان کی شخصیت کا دوسرا پہلو بھی سامنے آیا ہے کہ وہ حقیقت سے آنکھیں موند کر اس کو تسلیم کرنا زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔ایک ایسا شخصی پہلو جو کہ اب تک دنیا سے روپؤوش تھا۔ ساتھ ہی یہ تجویز ایک عالمی رہنما کے طور پر ان کی شخصیت کو سیاسی اور عوامی دونوں فائدے پہنچا سکتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں