جنیوا، 16 ستمبر (یو این آئی) اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن نے اپنی حالیہ رپورٹ میں اسرائیل کی جانب سے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کی تصدیق کردی۔
غیر ملکی خبر رساں ایجسنی روئٹرز کے مطابق اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں نتیجہ اخذ کیا کہ اسرائیل نے غزہ میں نسل کشی کی جبکہ وزیر اعظم نیتن یاہو سمیت اعلیٰ اسرائیلی حکام نے اس کی حوصلہ افزائی کی۔
تحقیقاتی کمیشن نے نسل کشی کی تصدیق کیلیے بڑی تعداد میں فلسطینیوں کی شہادتیں، امداد کی روک تھام، جبری نقل مکانی اور طبی مراکز کو تباہ کرنے کے شواہد پیش کیے جبکہ انسانی حقوق کے گروپوں اور دیگر کی بھی رائے لی جنہوں نے رپورٹ کی حمایت کی۔
تحقیقاتی کمیشن کی سربراہ اور بین الاقوامی فوجداری عدالت کی سابق جج نوید پلے نے کہا کہ غزہ میں نسل کشی ہو رہی ہے، ان مظالم کی ذمہ داری اسرائیلی حکام پر عائد ہوتی ہے جو تقریباً دو سال سے غزہ میں فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کو ختم کرنے کے مخصوص ارادے کے ساتھ نسل کشی کی مہم چلا رہے ہیں۔
روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے تحقیقاتی کمیشن کے ساتھ تعاون سے انکار کردیا، جنیوا میں اس کے سفارتی مشن نے کمیشن پر اسرائیل کے خلاف سیاسی ایجنڈا رکھنے کا الزام لگایا۔
انکوائری کمیشن کی رپورٹ 72 صفحات پر مشتمل ہے جو اقوام متحدہ کا اب تک کا سب سے مضبوط نتیجہ ہے لیکن یہ ادارہ آزاد ہے اور سرکاری طور پر اقوام متحدہ کی نمائندگی نہیں کرتا۔ اقوام متحدہ نے ابھی تک نسل کشی کا لفظ استعمال نہیں کیا لیکن اس پر اس حوالے سے دباؤ بڑھ رہا ہے۔
اسرائیل دی ہیگ میں بین الاقوامی عدالت انصاف میں نسل کشی کے مقدمے کا سامنا کر رہا ہے۔ وہ ان الزامات کو مسترد کرتا ہے اور 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کے بعد اپنے دفاع کے حق کا حوالہ دیتا ہے۔
اقوام متحدہ کے کمیشن نے پتا لگایا کہ اسرائیل نے چار جرائم کیے جن میں قتل، شدید جسمانی یا ذہنی نقصان پہنچانا، جان بوجھ کر ایسی حالات زندگی مسلط کرنا جو فلسطینیوں کی مکمل یا جزوی تباہی کا باعث ہوں اور ایسی تدابیر نافذ کرنا جو پیدائش کو روکنے کیلیے ہوں۔
انکوائری کمیشن نے شواہد کے طور پر متاثرین، گواہوں، ڈاکٹروں کے انٹرویوز، تصدیق شدہ اوپن سورس دستاویزات اور جنگ شروع ہونے کے بعد سے مرتب کردہ سیٹلائٹ تصاویر کے تجزیے کا حوالہ دیا۔
