سری نگر،4 اکتوبر(یو این آئی) جموں و کشمیر میں 24 اکتوبر کو ہونے والے راجیہ سبھا انتخابات کے لئے تمام بڑی پارٹیوں نے زور و شور سے تیاریاں کرنا شروع کی ہیں۔ چار نشستوں پر ہونے والے ان انتخابات کو وادی کی حالیہ سیاسی بساط پر ایک اہم موڑ سمجھا جا رہا ہے۔ قانون ساز کونسل، سری نگر میں الیکشن سے متعلقہ تیاریاں عروج پر ہیں اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے لئے خصوصی پاسز بھی جاری کئے جا رہے ہیں تاکہ پولنگ اور ووٹنگ کے عمل کی مکمل میڈیا کوریج ممکن ہو سکے۔
ان انتخابات میں نیشنل کانفرنس (این سی)، کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) تینوں نے اپنے اپنے امیدواروں کے ناموں پر سنجیدہ مشاورت کا عمل شروع کر دیا ہے جبکہ دیگر چھوٹی جماعتیں اور آزاد ارکان بھی طاقت کے توازن کو متاثر کر سکتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق بی جے پی کی جانب سے کئی نام سامنے آ رہے ہیں، جن میں سابق نائب وزیر اعلیٰ ڈاکٹر نرمل سنگھ، ریاستی صدر ست شرما، سابق صدر رویندر رینہ، پارٹی کے چیف ترجمان سنیل سیٹھی، سابق وزیر بالی بھگت اور او بی سی لیڈر ریش پال ورما شامل ہیں۔ پارٹی کے اندرونی ذرائع کے مطابق ایک خاتون رہنما اور ایک بزنس مین جو کچھ عرصہ قبل بی جے پی میں شامل ہوئے تھے، ان کے نام بھی زیر بحث ہیں۔
رپورٹس کے مطابق حال ہی میں او بی سی طبقے کا ایک وفد پارٹی قیادت سے ملا جس میں ریاستی صدر ست شرما اور جنرل سکریٹری (آرگنائزیشن) اشوک کول بھی شامل تھے۔ اس ملاقات میں اس بات پر زور دیا گیا کہ اس بار ایک او بی سی امیدوار کو ٹکٹ دیا جائے۔ حالانکہ بی جے پی کو چار میں سے صرف ایک نشست جیتنے کی امید ہے لیکن وہ سبھی نشستوں پر امیدوار کھڑا کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے۔ پارٹی کی ریاستی یونٹ نے اعلان کیا ہے کہ حتمی فیصلہ دہلی میں پارلیمانی بورڈ کرے گا۔
اس کے برعکس کانگریس اور نیشنل کانفرنس ایک وسیع سیکولر اتحاد کی تشکیل کی جانب بڑھ رہے ہیں تاکہ بی جے پی کو ہر نشست پر سخت مقابلہ دیا جا سکے۔
کانگریس ذرائع کے مطابق پارٹی کارکنان کی یہ مانگ ہے کہ کم از کم ایک نشست کانگریس کو ملنی چاہیے اور خاص طور پر جموں سے جہاں کانگریس کو ایک سیاسی خلا پر کرنے کا موقع نظر آ رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق نیشنل کانفرنس کے پاس تین نشستیں جیتنے کے لئے اعداد و شمار موجود ہیں، جبکہ کانگریس اتحاد کے ذریعے چوتھی نشست پر زور لگا رہی ہے۔ کانگریس چاہتی ہے کہ ان تین میں سے ایک محفوظ نشست اسے دی جائے تاکہ پارٹی اپنے کارکنان کو مطمئن کر سکے۔
کانگریس کے ایک سینئر لیڈر نے کہا کہ نشستوں کی تقسیم اور امیدواروں کا حتمی فیصلہ پارٹی قیادت نئی دہلی میں نیشنل کانفرنس کے ساتھ مشاورت کے بعد کرے گی۔
این سی ذرائع نے بتایا کہ پارٹی اپنے تین امیدوار کھڑا کرے گی جن میں ڈاکٹر فاروق عبداللہ، چودھری رمضان (شمالی کشمیر) اور سجاد کچلو (کشتواڑ) شامل ہیں۔
یاد رہے کہ 2022 کے اسمبلی انتخابات میں نیشنل کانفرنس نے 42 نشستیں جیتی تھیں، بی جے پی کے حصے میں 29، کانگریس کے پاس 6، پی ڈی پی کے پاس 3، پیپلز کانفرنس 1، سی پی آئی (ایم) 1، عام آدمی پارٹی 1 اور آزاد امیدواروں کے پاس 7 نشستیں گئی تھیں۔ ان اعداد و شمار کے لحاظ سے این سی اور کانگریس کو واضح برتری حاصل ہے جبکہ بی جے پی کو اس بار اتحادی جماعتوں کی کمی کا نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔
بی جے پی جنرل سکریٹری اشوک کول نے تسلیم کیا کہ این سی اور کانگریس کو اعداد و شمار میں سبقت حاصل ہے، تاہم پارٹی اپنی حکمت عملی پر قائم رہے گی۔
چوتھی نشست پر مقابلہ انتہائی دلچسپ بننے جا رہا ہے کیونکہ اس پر چھوٹی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کے ووٹ فیصلہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔
پی ڈی پی کے ایک سینئر لیڈر نے کہا: ‘ہم ایک سیکولر امیدوار کی حمایت کریں گے، تاہم حتمی فیصلہ پارٹی صدر اور پولیٹیکل افیئرز کمیٹی کرے گی’۔
الیکشن کمیشن آف انڈیا نے 24 ستمبر کو ان انتخابات کا اعلان کیا تھا۔ کمیشن کے مطابق چار خالی نشستوں کو پر کرنے کے لئے تین علیحدہ انتخابات ہوں گے کیونکہ یہ نشستیں مختلف ادوار کے تحت خالی ہوئی ہیں۔
شیڈول کے مطابق انتخابی نوٹیفکیشن 6 اکتوبر کو جاری ہوگا۔ 13 اکتوبر نامزدگی داخل کرنے کی آخری تاریخ ہوگی، جبکہ 14 اکتوبر کو جانچ پڑتال اور 16 اکتوبر کو نامزدگی واپس لینے کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ ووٹنگ 24 اکتوبر کو ہوگی اور اسی دن شام کو ووٹوں کی گنتی بھی ہوگی۔
یہ نشستیں فروری 2021 میں خالی ہوئی تھیں جب پی ڈی پی کے میر محمد فیاض اور نذیر احمد لاوے، بی جے پی کے شمشیر سنگھ اور کانگریس کے غلام نبی آزاد کی مدت پوری ہو گئی تھی۔ جموں و کشمیر اسمبلی گزشتہ برس اکتوبر میں تشکیل پائی تھی، جو اگست 2019 کے بعد پہلی مرتبہ منعقدہ اسمبلی انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آئی۔
سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان انتخابات میں بی جے پی اگرچہ مشکل میں ہے، تاہم اس کی کوشش ہوگی کہ اتحاد کی سیاست یا آزاد امیدواروں کی حمایت کے ذریعے کم از کم ایک نشست پر جیت درج کرے۔ دوسری جانب کانگریس اور این سی ایک وسیع سیکولر محاذ کی بنیاد رکھ کر بی جے پی کو مکمل طور پر کنارے لگانے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔
تمام تر سیاسی ہلچل اور چالوں کے باوجود فیصلہ کن موڑ 24 اکتوبر کو آئے گا جب یہ طے ہوگا کہ جموں و کشمیر کے ایوان بالا میں کس پارٹی کی نمائندگی کتنی مضبوط ہوگی۔
