سری نگر،9 اکتوبر(یو این آئی) جموں و کشمیر کی سرزمین اپنی بےمثال خوبصورتی کے ساتھ ساتھ اپنے شاندار آرٹ کے لئے بھی مشہور ہے اور انہی روایات میں ایک نام بسولی پینٹنگ کا بھی آتا ہے،جو جموں کے ضلع کٹھوعہ کے قصبہ بسولی سے جنم لینے والی ایک دلکش اور روحانی مصوری کی روایت ہے سترہویں صدی میں شروع ہونے والا یہ آرٹ آج بھی اپنی مخصوص پہچان، رنگوں کی چمک اور جذباتی تاثر کی بدولت زندہ و تابندہ ہے۔
بسولی پینٹنگ کی ابتدا سترہویں صدی میں ہوئی جب جموں خطے کے راج درباروں میں مصوری کو مذہبی اور ثقافتی اظہار کے طور پر فروغ دیا گیا۔ اس زمانے میں بسولی ریاست کے راجہ سنگرام پال (1635–1673 اور کِرپال پال (1678–1693( جیسے حکمرانوں نے فنونِ لطیفہ کو سرپرستی دی۔ انہی ادوار میں بسولی مصوری نے جنم لیا اور بعد میں اسے پہاڑی اسکول کا پہلا مرکز قرار دیا گیا۔
اس آرٹ کی مقبولیت نے یورپی اور ایرانی اثرات کو بھی اپنے اندر سمو لیا، جس سے یہ فن اور زیادہ متنوع ہو گیا۔
وقت کے ساتھ بہت سے روایتی فنون زوال پذیر ہو گئے، لیکن بسولی پینٹنگ آج بھی زندہ ہے۔جموں کے بازاروں میں اب بھی اس طرز کی پینٹنگز فریمز، گفٹ آئٹمز، وال ہینگنگز اور سجاوٹی بورڈز کی شکل میں دستیاب ہیں۔
سیاح ان فن پاروں کو یادگار کے طور پر خریدتے ہیں، جس سے مقامی فنکاروں کو معاشی سہارا ملتا ہے۔
سنیتا دیوی، جو بسولی کٹھوعہ کی ایک مقامی فنکارہ ہیں، نے یو این آئی سے بات کرتے ہوئے بتایا:’میں نے یہ ہنر اپنے خاندان سے سیکھا۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھ اس آرٹ نے مجھے پہچان دی۔ آج میں آن لائن آرڈرز کے ذریعے اچھی خاصی کمائی کرتی ہوں۔ لوگ بسولی پینٹنگ کو گھر کی سجاوٹ یا تحفے کے طور پر خریدتے ہیں’۔
جب ان سے حکومت کی جانب سے ملنے والی مدد کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا: ‘بسولی پینٹنگ کو جی آئی ٹیگ تو ملا ہے، لیکن حکومت کو اس ہنر سے وابستہ فنکاروں کو مالی معاونت اور مارکیٹ کی سہولت فراہم کرنی چاہیے تاکہ یہ روایت آنے والی نسلوں تک باقی رہے’۔
موصوفہ نے کہا: ‘بسولی پینٹنگ کو اگر ہم صرف ایک آرٹ فارم کہیں تو یہ اس کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔ یہ دراصل جموں خطے کی تہذیبی روح ہے، جو سترہویں صدی کے درباروں سے ابھر کر آج کے گھروں تک پہنچی ہے۔ اُس زمانے میں جب مغل مصوری دہلی اور لاہور میں عروج پر تھی، بسولی کے مصوروں نے اپنی ایک الگ پہچان بنائی — ایسی پہچان جس میں مذہب، روحانیت اور مقامی لوک کہانیاں سب ایک ساتھ نظر آتی ہیں۔ ان تصویروں میں رنگ صرف سجاوٹ کے لیے نہیں ہوتے بلکہ ہر رنگ کا ایک مخصوص مطلب ہے’۔
سال 2020 میں نبارڈ اور محکمہ ہینڈی کرافٹس کی مشترکہ کوشش سے بسولی پینٹنگ کو جی آئی ٹیگ فراہم کیا گیا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ فن خاص طور پر بسولی علاقے سے وابستہ ہے اور اس کی منفرد پہچان اسی خطے سے جڑی ہے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ جی آئی ٹیگ نہ صرف فنکاروں کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے بلکہ عالمی سطح پر بسولی کی شناخت کو مزید مستحکم بناتا ہے۔
بسولی پینٹنگ محض مصوری نہیں بلکہ ایک روحانی تجربہ ہے۔
ہر تصویر میں عقیدت، محبت اور انسانی احساسات کی جھلک ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے اکثر ’روح کی زبان میں بولتی تصویر‘ کہا جاتا ہے۔
فن کے ماہرین کے مطابق یہ آرٹ کشمیر اور جموں کے روحانی ماحول، پہاڑی ثقافت، اور انسان و فطرت کے تعلق کی ایک بصری ترجمانی ہے۔
