0

جہالت پسندی کے سارے ریکارڈ یہاں ٹوٹ جاتے ہیں

اپنے کشمیر میں لوگ اصول پسند ہیں یا نہیں،دین پسند ہیں یا نہیں، ترقی پسند ہیں یا نہیں، فیشن پسند ہیں یا نہیں اس پر بحث کی بہت گنجائش ہے لیکن اس پر بحث کی کوئی گنجائش نہیں کہ وادی بے نظیر کے باشندجہالت پسند ہیں۔اس کا ثبوت قدم قدم پیش کیا جاتا ہے۔لوگ نہ کسی قانون کو مانتے ہیں نہ کسی اصول کو نہ اخلاق کو نہ کسی پابندی کو۔لوگ گاڑی کو بیچ سڑک پر کھڑی کرکے دکاندار کے پاس چیزیں خریدنے جاتے ہیں اور جب تک واپس آتے ہیں ایک دو کلو میٹر ٹریفک جام ہوتا ہے۔کسی کی ہمت نہیں ہوتی کہ گاڑی والے سے کہے گاڑی سایڈ پر بھی کھڑی کی جاسکتی ہے۔کبھی کبھی لوگ دوسروں کے مکانوں کے گیٹ پر گاڑی کھڑی کرکے چلے جاتے ہیں اور اس دوران جب مکان والا اپنی گاڑی گھر سے نکالنا چاہے تو نہیں نکال سکتا۔ وہ انتظار کرتا ہے جب تک کہ گاڑی والا آجاتا ہے اور گیٹ سے گاڑی سٹارٹ کرکے چلا جاتا ہے۔گھر کامالک اعتراض کرے تو مرنے مارنے کی نوبت آجاتی ہے اس لئے زیادہ تر لوگ چپ ہی رہتے ہیں۔ اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ دو دوست ملتے ہیں اور بیچ سڑک ایک دوسرے کو گلے لگانے کے بعد حال چال پوچھنے میں مصروف ہوتے ہیں پیچھے کھڑی گاڑیاں ہارن بجاتی رہتی ہیں لیکن مجال ہے کہ باتیں کرنے والے ٹس سے مس ہوجائیں۔وہ جی بھر کے باتیں کرنے کے بعد اپنی اپنی راہ چل دیتے ہیں اور اس کے بعد ٹریفک بحال ہوتا ہے۔ کوئی اللہ کے ان بندوں سے نہیں کہتا کہ بیچ سڑک پر ہی حال چال پوچھنے کی کیا ضرورت تھی کنارے جاکر بھی پیٹ بھر کر باتیں کی جاسکتی تھی۔پیدل چلنے والے بھی کبھی کبھی بیچ سڑک چہل قدمی کرتے ہیں نہ پیچھے سے آنے والی گاڑیوں کا کوئی خیال رہتا ہے اور نہ ہی آگے سے آنے والی۔موڑ ہوا تو کچھ دیر بعد کنارے ہولیتے ہیں نہیں ہوا تو چلتے رہتے ہیں۔آزادی کے ساتھ لوگ اپنی دکانوں کے تھڑے باہر نکال کر سڑکوں کا سائز گھٹا کر انہیں کوچوں میں تبدیل کرتے ہیں۔ کوچوں کو مکان والے آگے نکل کر تنگ کرتے ہیں۔ خالی زمینوں پر ”مقبوضہ اہل اسلام“کا بورڈ لگا کر کچھ روز بعد مسجدوں کے متولی دکانیں تعمیر کرتے ہیں اور اپنے اپنے رشتے داروں میں تقسیم کرکے کرایہ دس روپے سے سوروپے تک مقرر کرتے ہیں۔پھر اپنے نام کی دکان جے کے بینک کوآفر کرکے اے ٹی ایم لگواتے ہیں جس کا کرایہ دس سے پندرہ ہزار لیا جاتا ہے۔اس طرح جہالت کے سارے تقاضے پورے کئے جاتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں