اپنی جنت نظیر وادی میں عام طورپر لوگ ایک چہرے میں کئی چہرے چھپا لیتے ہیں۔منشیات فروش عام طور پر حج پر بھی جاتے ہیں عمرہ بھی کرتے رہتے ہیں اور ایک عدد مسجد بھی تعمیر کراتے ہیں پھر اس کے متولی بھی بن جاتے ہیں اور عام خام کو اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی نصیحتیں بھی کرتے ہیں۔چند ایک غریبوں کی مدد کرکے نام، شہرت اور عزت بھی کماتے ہیں اس طرح سے کسی کو ان کے منشیات کے کاروبار پر شک بھی نہیں ہوتا ہے۔پولیس اور سی آئی ڈی والے بھی ایسے لوگوں پر شک نہیں کرتے لیکن خدا کی لاٹھی بے آواز ہے اور ایک دن کسی نہ کسی طرح سے ان کا اصل چہرہ بے نقاب ہوہی جاتا ہے۔سیاست داں بھی ایک چہرے پر کئی کئی سجاتے ہیں۔ تنہائیوں میں جام و ساگر بھی چھلکاتے ہیں اور شراب پر پابندی کے زور دار مطالبے بھی کرتے ہیں۔ اب سماجی کارکنوں کا ایک نیٹ ورک بھی بے نقاب ہوگیا ہے جو سماجی خدمات کی آڑ میں دہشت گردی کی معاونت کرتے رہے اور دہشت گردی کو فروغ دینے کے لئے سرگرمی کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں۔وہ جو سڑے ہوئے گوشت اور مرغے فروخت کرنے کا کاروبار کیا کرتے تھے وہ بھی داڑھی رکھتے تھے اور نمازیں پڑھاکرتے تھے اس طرح سے سماج میں ان کی عزت ہوا کرتی تھی پھر ایک دن ان کی اصلیت عوام کے سامنے آگئی اور بے چارے عام لوگ دانتوں تلے انگلی دبا کر رہ گئے۔اپنے ہاں اپنے آپ کو صحافی کہنے والے بہت سے سوشل میڈیا ہاکر پیدا ہو ئے ہیں جو لوگوں کو ٹھگا کرتے ہیں۔ افسروں کو ڈرایا دھمکایا کرتے ہیں اور ان سے روکڑا بھی وصول کرتے رہے ہیں۔ فرضی بیماروں کے نام پر پیسے بھی وصولا کرتے ہیں اور عوام کو بے وقوف بنانے کا ہر حربہ استعمال کرکے اپنا ناجائز کاروبار چمکایا کرتے ہیں۔کبھی کبھی کو ئی ایک بے نقاب بھی ہوجایا کرتا ہے لیکن کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بہت سارے لوگ یہ کاروبار جاری رکھے ہوئے ہیں۔صحافی کا نقاب پہن کر یہ ٹھگ سرکاری ایوانوں میں بھی اپنی چاپلوسیوں کے سبب سب سے اوپر بیٹھے دکھائی دیتے ہیں۔اکثر دیکھا جارہا ہے کہ لوگ محبت کی نام پر نفرت بانٹا کرتے ہیں۔ محبت کا نقاب ان کے چہرے پر ہوتا ہے لیکن ان کے ارادے اورمنصوبے کچھ اور ہی ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی اصل پہچان چھپی رہتی ہے یہاں تک کہ وہ بہت سے لوگوں کی زندگیاں اجیرن بنادیتے ہیں۔اس لئے لوگوں کے چہروں کو نہیں ان کے عمل کو دیکھنے اور جانچنے کی ضرورت ہے۔
0
