سری نگر، 20 دسمبر (یو این آئی) وادی کشمیر میں زمستانی سردیوں کے لئے مشہور چالیس روزہ چلہ کلاں ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب اپنے پوری آب و تاب اور جاہ و جلال کے ساتھ مسند اقتدار پر جلوہ افروز ہو رہا ہے۔
وادی میں چلہ کلان کا دور اقتدار حسب دستور دسمبر کی 21 تاریخ سے شروع ہو کر ماہ جنوری کی 31 تاریخ کو اختتام پذیر ہوگا اور اپنے چالیس روزہ دور اقتدار میں ’چلہ کلان‘ طاقت کا بھر پور مظاہرہ کرکے لوگوں کو گونا گوں مشکلات سے دوچار کردیتا ہے۔
چلہ کلان لوگوں کو دوران شب ہی نہیں بلکہ دن کے وقت بھی شدید ترین سردی سے بچنے کے لئے گرم سے گرم لباس زیب تن کرنے اور گرمی کے تمام قدیم و جدید آلات استعمال کرنے پر مجبور کر دیتا ہے وہیں پانی کے ذخائر اور نلوں کو منجمد کرکے لوگوں کو پانی کی ایک ایک بوند کے لئے ترساتا ہے۔
چلہ کلان کے اپنے دور اقتدار میں تیکھے تیور دکھانے کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ارباب اقتدار اس کے شروع ہونے سے دو تین ماہ قبل ہی بسترہ باندھ کے جموں کا رخ کرتے ہیں اور پھر اس کا دور اقتدار ختم ہونے کے کئی ماہ بعد ہی واپس لوٹتے ہیں۔
وادی کشمیر میں ارباب اقتدار ہی چلہ کلان سے خوف زدہ نہیں ہیں بلکہ امرا بھی اس کا نام سن کر ہی گرم علاقوں کی طرف اس طرح چل کر مہینوں تک غائب ہو جاتے ہیں جس طرح یہاں سورج بادلوں کی اوٹ میں کئی دنوں تک چھپ جاتا ہے۔
ادھر اہلیان وادی نے امسال بھی چلہ کلان کا مقابلہ کرنے کے لئے تمام تر تیاریوں کو حتمی شکل دے رکھی ہے جہاں لوگوں نے گھروں میں سوکھی سبزیوں اور دیگر اشیائے خوردنی کو اسٹاک کیا ہے وہیں ایندھن اور کانگڑیوں کو بھی گھروں میں تیار رکھا گیا ہے۔
وادی میں اگرچہ گیس اور بجلی سے چلنے والے آلات گرمی کا بھی خوب استعمال کیا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود بھی دیکھا جاتا ہے کہ شہر و گام میں کانگڑی کا کوئی نعم البدل نہیں ہے جو محتاج بجلی ہے نہ گیس، بلکہ ایندھن کی ایک دو مٹھیوں سے ایک آدمی کو شدید سردی سے اسی طرح حفاظت کرتی ہے جس طرح ایک ماں اپنے معصوم بچے کی۔
تاہم وادی میں امسال سخت سردیوں نے لوگوں کو چلہ کلاں کی آمد سے قبل ہی شدید مشکلات سے دوچار کر دیا۔
اہلیان وادی ہمیشہ سے ہی چلہ کلاں کے دور اقتدار سے خوف زدہ ہیں اور عصر حاضر میں جدید ترین سہولیات کے باجود بھی اس کے دبدبے میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔
محمد علی نامی ایک عمر رسیدہ شخص نے یو این آئی کو بتایا: ‘میرے بچپن میں سہولیات نہیں تھی لہذا اس کا زیادہ اثر رہتا تھا، بھاری برف باری سے مکان گر جاتے تھے، پانی کی شدید قلت پیدا ہوجاتی تھی، یہاں تک کھانے پینے میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا، اور رابطہ سڑکیں ہی کیا ہمسایہ کے گھر جانے کے لئے راستے بند ہوجاتی تھیں’۔
انہوں نے کہا: ‘تاہم آج کے دور میں سہولیات ہیں، سڑکوں سے جلد ہی برف ہتایا جاتا ہے، بجلی کو بھی کم سے کم وقت میں بحال کیا جاتا ہے اور گرمی کے بھی بھر پور انتظامات ہیں لیکن پھر بھی اس کا دبدبہ قائم ہے’۔
چالیس روزہ چلہ کلان کے اختتام کے بعد بیس روزہ ’’چلہ خورد‘‘ تخت نیشن ہوگا تاہم اس کی حکومت اس قدر سخت نہیں ہوتی ہے اس دور میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سردی کی شدت میں بتدیرج کمی واقع ہونے لگتی ہے تاہم اس دور میں بھاری برف باری کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔
0
