سری نگر،21ستمبر(یو این آئی) جموں وکشمیر کی معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والا سیب کا کاروبار اس وقت شدید بحران سے دوچار ہے سری نگر جموں قومی شاہراہ کی بندش اور بار بار کی رکاوٹوں کے نتیجے میں ہزاروں ٹرکوں میں لدے سیب کئی دنوں تک راستوں میں پھنسے رہے، جس کے بعد جب یہ ایک ساتھ باہر کی منڈیوں تک پہنچے تو نہ صرف قیمتوں میں شدید گراوٹ آئی بلکہ پھل کی کوالٹی بھی متاثر ہو گئی۔
باغبان حکومت سے فوری ریلیف اور ٹرانسپورٹ سہولیات کی فراہمی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
فروٹ منڈی پلوامہ کے سینئر عہدیدار عبدالمجید نے یو این آئی کو بتایا کہ اس وقت مارکیٹ میں سیب کی قیمتوں میں غیر معمولی گراوٹ درج ہوئی ہے۔ ان کے مطابق کچھ ہی دن پہلے فی پیٹی سیب کی قیمت تیرہ سو روپے تھی جو اب سات سو روپے تک گر گئی ہے۔ اس طرح کسان ناقابل تلافی نقصان کا شکار ہو رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ نقل و حمل کے اخراجات میں اضافے نے بھی باغبانوں کے مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔
عبدالمجید نے بتایا کہ ‘شاہراہ کی بندش سے قبل فی پیٹی کا کرایہ نوے روپے تھا لیکن اب یہی کرایہ ساڑھے تین سو روپے تک جا پہنچا ہے’۔ انہوں نے کہا کہ اس غیر معمولی اضافہ نے کاشتکاروں اور تاجروں کو دوہرا نقصان پہنچایا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘اگرچہ حکومت نے پلوامہ فروٹ منڈی کے لئے ایس آر ٹی سی کی سات گاڑیاں فراہم کی ہیں تاہم یہ بالکل ناکافی ہیں منڈیوں میں پھل سڑ رہا ہے، باغبان اپنی محنت کا پھل ضائع ہوتے دیکھ کر خون کے آنسو روتے ہیں’
موصوف عہدیدار نے کہا: ‘ واحد حل یہ ہے کہ حکومت مزید ٹرانسپورٹ سہولیات فراہم کرے تاکہ سیب جلد از جلد بیرونی منڈیوں تک پہنچ سکے’۔
چرار شریف فروٹ منڈی کے جنرل سیکریٹری فیضان جیلانی نے بھی اسی نوعیت کے خدشات ظاہر کرتے ہوئے یو این آئی کو بتایا کہ ٹرانسپورٹ کرایوں میں اضافے کے سبب فروٹ سیزن تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ‘اب باغ مالکان مجبوراً بازاروں میں براہ راست سیب فروخت کر رہے ہیں، جس سے انہیں مزید نقصان ہو رہا ہے’۔
جیلانی نے کہا کہ باہر کی منڈیوں میں ایک ساتھ ہزاروں ٹرکوں کی آمد نے سپلائی اور ڈیمانڈ کے توازن کو بگاڑ دیا ہے، جس کے نتیجے میں قیمتیں تیزی سے گری ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ بدقسمتی سے چرار شریف فروٹ منڈی کے لئے حکومت نے کوئی بھی ایس آر ٹی سی گاڑی فراہم نہیں کی۔ چونکہ بڈگام ضلع کی واحد بڑی منڈی یہی ہے، اس لیے یہاں مختلف علاقوں سے سیب آتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا: ‘شاہراہ کی مسلسل بندش کے نتیجے میں صرف چرار شریف منڈی میں تقریباً سو کروڑ روپے کا نقصان پہنچ چکا ہے’۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت فوری طور پر ٹرانسپورٹ کرایوں میں کمی کرے اور ایس آر ٹی سی گاڑیاں دستیاب رکھے تاکہ کسانوں کو کچھ راحت مل سکے۔
مقامی باغبانوں کا کہنا ہے کہ وہ سارا سال کھاد، اسپرے، لیبر اور پیکجنگ پر بھاری سرمایہ لگاتے ہیں اوراسی فصل پر ان کی روزی روٹی اور اخراجات خانہ کے بھر پائی کا انحصار ہے۔ اب جبکہ ان کی محنت کا پھل منڈیوں میں سستے داموں بک رہا ہے اور بہت سا پھل راستے میں سڑ رہا ہے، وہ اپنے مستقبل کے بارے میں شدید خدشات میں مبتلا ہیں۔
ایک باغبان نے یو این آئی کو بتایا: ’ہماری تمام تر آمدنی کا انحصار اسی فصل پر ہے۔ اگر ہم لاگت بھی پوری نہ کر پائیں تو آئندہ سیزن میں باغبانی کیسے ممکن ہوگی؟‘
واضح رہے کہ کشمیر کی سیب کی صنعت براہ راست 35 لاکھ سے زائد لوگوں کی روزی روٹی سے جڑی ہوئی ہے۔ پچھلے کئی برسوں سے خراب موسم، باغبانوں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے فوری اور مؤثر اقدامات نہ اٹھائے تو یہ بحران ایک بڑی معاشی تباہی میں بدل سکتا ہے۔
باغبان اور تاجران متفق ہیں کہ موجودہ صورتحال سے نکلنے کا واحد حل یہ ہے کہ حکومت اضافی ایس آر ٹی سی گاڑیاں فراہم کرے، کرایوں کو کنٹرول کرے اور شاہراہ کو مستقل بنیادوں پر بحال رکھنے کے لئے مؤثر اقدامات کرے۔ ساتھ ہی ان کا کہنا ہے کہ کسانوں کو ہونے والے بھاری نقصان کے ازالے کے لئے فوری طور پر مالی معاوضہ فراہم کیا جانا چاہئے تاکہ وہ اپنی فصل کو سنبھال سکیں اور اگلے سیزن کی تیاری ممکن ہو سکے۔